Pages

Powered By Blogger

Tuesday, January 7, 2025

( 20 ) بیگانگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ڈپریشن کا حل


ڈپریشن ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے بدن میں خاص طور پر دماغ کے مختلف خصوں اور نیورولوجیکل نیٹورک میں بگاڑ اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جن کا باقاعدہ علاج کرنا ضروری ہے۔


ہمارے یہاں ڈپریشن کو بیماری نہیں سمجھا جاتا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی فرد کی دماغی حالت بہت خراب ہو جائے تو اس کے ساتھ تھوڑی بہت ہمدردی پیدا ہو سکتی ہے لیکن بیگانگی کے نتیجے میں سماج میں موجود لاکھوں ڈپریشن کے کیس قبول کرنے پر کوئی راضی نہیں ہوگا۔


دوسرا مسئلہ ڈپریشن کے مختلف لیول ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر انسان شدید ڈپریشن کا شکار ہو۔ معمولی ڈپریشن سے لیکر شدید ڈپریشن تک کئی لیول ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ معمولی ڈپریشن بھی اگر زیادہ عرصے تک رہے تو خطرناک ہو سکتی ہے۔


سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر پوری آبادی کا علاج کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ بظاہر اس کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ سیاسی اور سماجی لیڈر و کارکنان اپنی ذہنی و جسمانی صحت پر زیادہ توجہ دیں اور یہ بات ذہن میں بٹھا دیں کہ پوری آبادی ہمدردی کے مستحق ہے کیونکہ تاریخ کے جبر کے زیر اثر ان لوگوں کو ایسی ذہنی اذیت سے گزارا جا رہا ہے جن میں ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں۔ 


سیاست میں عوامی ڈپریشن زیادہ تر Cognitive Dissonance کی شکل میں ہوتی ہے۔ اس کا علاج تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہم لوگوں کو حقائق کی طرف واپس لائیں۔ پس ہمیں ایسے افراد کی ضرورت رہتی ہے جو حقائق کا کھوج لگانے کے قابل ہوں۔ 


نوٹ:

Cognitive Dissonance 

انسانی ذہن حقیقت تخلیق کرتا ہے۔ یہ کسی پروجیکٹر کے فلم کی طرح ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم دریا کنارے بیٹھ کر لہروں کو دیکھتے ہیں تو ہم ان لہروں کے اوپر مسلسل اپنے ذہن کی بنائی ہوئی ویڈیو پروجیکٹ کرتے ہیں جو اکثر حقیقی لہروں سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں وہ نظر آتا ہے جو ہمارا ذہن ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔


بعض اوقات ذہنی تصاویر اور خیالات اصل حقائق سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ ایسا اکثر تصورات اور تجریدی حقائق میں زیادہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ ہم یا ہمارے لیڈر ہمارے خراب حالات کے ذمہ دار ہیں اور جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں کہ معاملہ اس کے الٹ ہے جیسا کہ غلامی کے دور یا نوآبادیاتی دور میں تھا تو ہمارے ذہنی خیالات اور ہمارے اردگرد کے خقائق کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوتا ہے اور ہم دونوں سوچوں کے درمیان پھنس جاتے ہیں۔ اس ذہنی سطح کو Cognitive Dissonance کہتے ہیں۔


اس ذہنی سطح کی بنیادی نشانیاں پریشانی، احساس جرم اور شرمندگی کے احساسات ہیں۔ ہمارا ذہن اصلی حقائق کو تسلیم نہیں کرتا اور اور اپنے ذہنی دورنگی کے لئے جواز مہیا کرتا ہے۔ ہمارے دماغ کے وہ حصے متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو غلطی معلوم کرنے، جذبات پر قابو پانے اور یاداشت اور سیکھنے کے عمل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ 


اگر وقت پر اور ساتھ ساتھ Cognitive Dissonance کو پکڑا نہیں جاتا اور اس سے جان نہیں چھڑائی جاتی تو یہ مستقل ذہنی بیماریوں جیسے ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

My Articles

Read and Comment
Powered By Blogger

Followers