اسے نیو لبرالزم، کپیٹلزم یا کو ئی بھی نام دیں۔ اشرافیہ ایک خاص طریقے سے اپنی سیاسی طاقت کولوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دیتا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کو اشرافیہ کی طاقت فطری لگتی ہے ۔ اشرافیہ کا اپنا کلچر ہوتا ہے جو یہ نیچے طبقات پر مسلط کرتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے کے نچلے طبقات اپنا اجتماعی شعور کھو دیتے ہیں اور اشرافیہ کے کلچر کی نقل کرنے لگتے ہیں۔بالفاظِ دیگر معاشرے کا سب سے بالادست طبقہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے زیرِ دست طبقات کو کلچرال چینج کے ذریعے غلام بنائے رکھتا ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کو شش کر تے ہیں۔بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنا، شادی بیاہ اور فوتگی کے موقع پر پانی کی طرح پیسے بہانا، بیوٹی پارلر میں قیمتی میک اپ، قیمتی جوڑے اور دیگر عیاشیاں ہمیشہ سے اشرافیہ کے چونچلےرہے ہیں۔یہ ایک طرح سے طاقت اور برتری کا احساس ہے جو بالادست طبقہ دوسروں کو دکھانے کے لئے کرتا ہے اور اس سے اپنی جھوٹی انا اور خود فریبی کو چھپاتا ہے تاکہ لوگ ان سے مرغوب رہیں اور ان کی طاقت برقرار رہے۔تاہم یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ معاشرے کے نچلے طبقات کیوں ایسے عیاشیوں میں پڑ جاتے ہیں جن سے ان کو وہ ساری چیزیں نہیں ملتی جو کہ اشرافیہ کو ملتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زیرِ دست طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اشرافیہ کی نقل کرکے حقیقی خوشی حاصل کر لیں گے۔ اس فرضی خوشی کے لئے یہ طبقات بہت زیادہ محنت کرتے ہیں اور ہر جائز و ناجائز طریقےسے دولت کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔تاہم ایک یا دو مواقع پر دولت کی نمائش نہ تو نچلے طبقات کی سٹیٹس کو تبدیل کرتا ہے اور نہ ہی وہ زیادہ وقت کے لئے خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔ایسے لوگ دولت کمانے کے شیطانی چکر میں اپنی زندگی تباہ کر دیتے ہیں اور بالادست طبقے کے کلچر کو پھیلانے کے سب سے بڑے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان لوگوں کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ یہ اپنے کلاس یا اپنے آپ کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔
نوآبادیاتی نظام اور اسکے باقیات نے معاشرے کے اکثریت کو خود سے بیگانہ کر دیا ہے۔بیگانگی کے کچھ شکلوں کو تو ہم پہچان سکتے ہیں جیسے اپنی زمین ،زبان، ثقافت، تعلیم اور سیاسی و سماجی اختیارکے مقابلے میں کسی اور زبان اور ثقافت کے زیرِ اثر زندگی گزارنا۔ تاہم بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ مسلسل بیگانگی انسانی کو اپنے سماج کے وجود سے غافل رکھتی ہے اور اس کو نفسیاتی طور پر انفرادیت کی طرف دھکیل دیتی ہے ۔ اجتماعیت کی یہ ضِد آخر میں شدید تنہائی جیسے ذات سے بیگانگی پر ختم ہوتی ہے۔
ذات سے بیگانگی معاشرے میں شدید ڈیپریشن اور ذہنی بیماریوں کا سبب ہے۔انسانی شخصیت سماجی پریشر کے نتیجے میں ایک طرف کمزور ہو جاتی ہے تو دوسرے طرف یہ پریشر اس کو چیزوں جیسے گاڑیوں، بنگلوں، پوسٹوں، بڑی بڑی تقریبوں کے پیچھے لگا دیتی ہے اور وہ ان فرضی خوشیوں کے حصول میں فرار ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔معاشرے میں عدم تحفظ بڑھنے لگتا ہے اور آخر کار معاشرہ ایک شیطانی چکر کا شکار ہو جاتا ہے جہاں سے نکلنا ناممکن سا لگتا ہے۔ڈیپرشن کے شکار لوگوں پر حکومت کرنا سب سے آسان کام ہے کیونکہ تھوڑا سا ڈر بھی ان کو تابعدار رکھتا ہے۔ایسے معاشرے سے لوگ بھاگنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment