Pages

Powered By Blogger

Sunday, January 5, 2025

(8) نیشنلزم

نیشنلزم یا قوم پرستی فطری انسانی جذبے کی بنیاد پر بننے والا ایک سیاسی نظریہ ہے۔ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اس سرزمین کی ہر ایک چیز کو وہ اپنا سمجھتا ہے۔ اپنے خاندان، آباواجداد، بچپن، زبان ، دوست ، جانور اوردرخت، دریا، پہاڑ ،زمین، گلی کوچیں، عمارات اور روایات وغیرہ سب انسان کو پیارے ہوتے ہیں۔ انسان اگر وطن سے باہر جاتا ہے تو اسے ان ساری چیزوں کی یاد ستاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں انسان کی ذات کا حصہ ہوتی ہیں۔ انسان اس سے بمشکل جدا ہوسکتاہے اور جب ان ساری چیزوں یعنی اس معاشرے کی آزادی کو خطرہ ہوتا ہے تو وہ اس کی آزادی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
دنیا کی زیادہ تر ریاستیں قومی ریاستیں کہلاتی ہیں اور ان کے نام پرانے وقتوں سے وہاں کے بڑے اقوام کے نام پر ہیں۔یہ اقوام اپنے تہذیبی ورثے پر فخر کرتے ہیں۔ تاہم ان ممالک میں رہنے والے دیگر اقوام کی زبانوں اور ثقافتوں کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔
نیشنلزم ، کیپٹلزم یا کمیونزم کے وسیع تر نظریات کے اندر پنپنے والا ایک نظریہ بھی ہے ۔ یہ آزاد معیشت اور کنٹرولڈ معیشت دونوں کو اپنا سکتا ہے۔ یورپ میں زیادہ تر سرمایہ دار ریاستو ں کی بنیاد نیشنلزم ہے جبکہ موجودہ چین کے کمیونسٹ ریاست بھی ایک نیشنلسٹ ریاست ہے جسے چین میں Socialism with Chinese characteristics کہا جاتا ہے۔
بہت سارے مذہبی ریاستیں بھی قومی ریاستیں ہیں جیسے عرب ، ایران وغیرہ۔
نیشنلزم کو جہاں حق خود ارادیت، استعمار کے خلاف جدوجہد اور قوموں کے برابری کے نظریے کے طور پر اپنایا گیا ہے تو کہیں یہ نسلی اورلسانی برتری، دوسروں پر جنگیں مسلط کرنے اور ان کو زیر کرنے کے لیے بھی اپنایا جاتا ہے۔ ان دونوں معانوں میں نیشنلزم بذات خود کوئی مقصد نہیں رکھتا بلکہ مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔
نیشنلزم کو اگر خود ایک مقصد تصور کیا جایے تو اس کا اختتام قومی ریاست Nation State کا قیام ہے۔ اگر چہ قوم پرست بظاہر اس طرف کم ہی آتے ہیں لیکن ان کے دل میں یہی ایک خواہش ہوتی ہے کہ ایک قومی ریاست ہو جس میں ان کے اپنے جغرافیایی، نسلی، لسانی اور ثقافتی ورثہ محفوظ ہو اور مزید ترقی کرے۔ اس قسم کی سوچ میں کچھ مسائل ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے۔ پہلا مسلہ یہ ہے کہ ایک خالص قومی ریاست محض ایک تصور ہے اور دنیا کی تمام ریاستیں ملٹی کلچر ریاستیں ہیں جن میں ایک سے زیادہ ثقافتیں یا زبانیں ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی ثقافت کے لیے اپنا ملک بنانا ممکن ہی نہیں۔ اسکے علاوہ ثقافتیں اور زبانیں خود تغیرپذیر چیزیں ہیں۔
شاید قوم پرست ایک قومی ریاست کے خواب اس لیے بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں ریاست سب سے طاقتور ادارہ ہے اور اس طاقتور ادارے کو اپنے قبضے میں لے کر انسانوں کی ترقی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ریاست کو سب سے طاقتور ادارہ سمجھنا بھی ایک غلطی ہے۔ موجودہ دور میں جہاں ریاست کی کوئی جامع تعریف ممکن نہیں وہاں ریاستی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیش آسکتے ہیں۔ موجودہ دور میں ریاست کو دو طرح کے چیلینجز کا سامنے ہے۔
ریاست بہت سارے کاموں میں خود مختار نہیں۔ مالیاتی نظام سے لیکر تعلیمی معیارات تک ریاستیں بین الاقوامی اداروں کے مرہون منت ہیں۔ اس کی مثالیں آیی ایم ایف یا او ای سی ڈی OECD وغیرہ ہیں۔ دوسری طرف ریاست کے اندر حکومت کے اختیارات محدود ہوتے جارہے ہیں اور گورننس کا جدید تصور روایتی حکومت کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ یہ تصور بین الاقوامی اداروں کا سافٹ پاور Soft Power، ملکی اور بین الاقوامی کارپوریٹ اداروں، این جی اوز اور سول سوسائٹی پر مشتمل ہے۔
اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک قومی ریاست کا تصور کافی حد تک مبہم اور کہیں کہیں غیر عملی ہے بلکہ ایسی ریاست بذات خود انسانی ترقی کی کوئی گارنٹی بھی نہیں۔

No comments:

Post a Comment

My Articles

Read and Comment
Powered By Blogger

Followers