Pages

Powered By Blogger

Sunday, January 5, 2025

(14) زبان اور سیاست

فرانسیسی ناول نگار الفانس دودے کا افسانہ "آخری سبق" فرانسیسی پڑھانے والے ایک استاد کی کہانی ہے۔ جب جرمن فرانس کے ایک گاؤں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو استاد ہیمل بچوں کے ساتھ گاوں کے بزرگوں کو بھی آخر ی فرانسیسی کلاس میں بٹھا دیتا ہے اور سب کو ایک نصحیت کرتا ہے کہ زبان آزادی کی کنجی ہے۔
بیسویں صدی کی مفکریں اس بات پر متفق ہیں کہ زبان اور سیاسی طاقت کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ جب ایک قوم کو غلام بنایا جاتا ہے تو ان سے ان کی زبان چھین کر ان کے اوپر دوسری زبان مسلط کی جاتی ہے۔ انگریزوں نے یہی کچھ برصغیر کے لوگوں کے ساتھ کیا۔
زبان کے ذریعے لوگوں کو محکوم بنانا صرف لوگوں پر دوسرے زبان مسلط کرنا نہیں بلکہ ایک زبان بولنے والے طاقتور لوگ زبان کے اندر وہ الفاظ، خیالات، ادب اور تصورات کی اجازت دیتے ہیں جو ان کی سیاسی طاقت کو تقویت بخشتے ہیں۔ جبکہ اس کے برخلاف ایسی تمام باتوں پر پاپندی ہوتی ہے جن سے مقتدر لوگوں کی طاقت کو خطرہ درپیش ہو۔ مشہور فلسفی گرامچی اورفوکالٹ نے سیاسی طاقت کو زبان کے ساتھ جوڑا ہے ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ طاقتور لوگ ڈنڈے کی زور پر حکومت نہیں کرتے بلکہ زبان کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو مٹھی میں لے لیتے ہیں۔
زبان کے ذریعے لوگوں کی سوشل انجنیرنگ یعنی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس کے لئے تعلیمی نظام اور ایسے تمام ادارے اور جگہیں استعمال کی جاتی ہیں جہاں زبان کے ذریعے علم تخلیق کیا جاتا ہے۔اردو زبان اور دیگر علاقائی اور مادری زبانیں محکوم اور بے بس لوگوں کا ہتھیار ہیں اور ان زبانوں کو تعلیم اور سرکاری زبان کا درجہ دینا ان لوگوں کو سیاسی طور پر آزاد کرانا ہے۔مادری زبان میں تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے جس سے کسی بھی انسان کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔

No comments:

Post a Comment

My Articles

Read and Comment
Powered By Blogger

Followers