Pages

Powered By Blogger

Monday, January 27, 2025

پوسٹ نمبر 1 تعلیم کا مسئلہ

تعلیم کا مسئلہ
موجودہ دور میں اس کا سادہ جواب ممکن نہیں کیونکہ ایک طرف تاریخی طور پرتعلیم کے بارے میں قدامت پسند اور جدت پسند دونوں خیالات موجود ہیں تو دوسری طرف بدلتے حالات تعلیم کی افادیت کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں۔
تعلیم کے مسئلے کو سمجھنے کے لئے اسے فریم کرنا بہت ضروری ہے۔فریمنگ کا مطلب ہے کہ تعلیم کے مسئلے کو ایسا سٹرکچر کیا جائے جس کے نتیجے میں ہمیں اسے سمجھنے ، اس کا تجزیہ کرنے اور حل نکالنے میں آسانی ہو۔بدلتے ہوئے حالات کا تقاضہ ہے کہ تعلیم کے مسئلے کو ماضی اور حال کی بجائے مستقبل میں فریم کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم سے متعلق قدامت پسند نظریات جن میں ماضی کے اقدار کا تحفظ سرِفہرست ہے، تعلیمی مسئلے کو سمجھنے میں مددگار نہیں۔
تعلیم کے مسئلے کو مستقبل کی نظر سے دیکھنا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ہمارے سامنے ایک سادہ سا سوال ہے جس کا جواب ہمارے پاس نہیں۔ وہ سوال یہ ہے کہ آئندہ چند سالوں میں کیا ہونے جارہا ہے۔ مصنوعی ذہانت بڑی تیزی کے ساتھ روایتی علوم، اساتذہ اور دانشوروں کی علم پر اجارہ داری اور سکول ، کالج اور یونیورسٹیو ں کی افادیت کو چیلنج کر رہی ہے۔بہت جلد ہی ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ انسانی تخلیق کیا گیا علم اور مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں تخلیق شدہ علم کے درمیان فرق کو جاننا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔تعلیم کے موجودہ معانی جس میں مہارتیں اور اقدار سرفہرست ہیں وہ مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں حاصل شدہ ڈگریوں کی وجہ سے اپنی افادیت کھو چکے ہے۔ تعلیم کے ثقافتی اور ملکی کانٹکسٹ پرگلوبلائزیشن اور آن لائن روزگار کی وجہ سے ضرب پڑ چکا ہے۔تعلیم کے بارے میں کوئی ایک نقطہ نظر قابل قبول نہیں جس کو عملی جامہ پہنایہ جا سکے۔روایتی تعلیم کا سکوپ بدل رہا ہے اور سیلف لرننگ کا سکوپ بڑھ رہا ہے جس میں نئی نسل خود سے ایسی چیزیں سیکھ رہی ہے جو ہمیں مغیوب یا بے کار لگتی ہیں لیکن جس کے نتیجے میں وہ خود اپنے لئے بہتر روزگار تلاش کر رہے ہیں۔ مستقبل کے تعلیم کے مفروضے سر اٹھانے لگے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
مشہور مورخ یوال نوح ہراری سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ ان بدلتے ہیں حالات میں بچوں کو کیا پڑھائیں تو ان کا جواب نہیں تھا۔ تاہم اس نے ایک مفروضہ قائم کیا کہ مستقبل کے انسانی چیلنجز کو دیکھتے ہوئے بچوں کی جذباتی نشونما پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ذکر شدہ ایمونشنل انٹلیجنس کیا ہے؟

پوسٹ نمبر 24 نیو لبرلزم کا بنیادی آرگیومنٹ

 پوسٹ نمبر 24

نیو لبرلزم کا بنیادی آرگیومنٹ
کیپٹلزم کی جدید شکل نیو لبرلزم جہاں اقتصاد اور کاروبار کو حکومتی کنٹرول سے آزاد کرانے کی بات کرتا ہے وہاں پر یہ انسانی زندگی کے بارے میں انفرادیت کا فلسفہ بھی دیتا ہے۔ یہ خطرناک فلسفہ اس عفریت کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کو تمام دنیا نے تقدیر کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ یہ فلسفہ کچھ یوں ہے۔
انسان بذات خود ایک کیپٹل ہے۔وہ اپنے اوپر کام کرے اور اپنی تعلیمی اور مہارتیں بڑھائیں۔ انٹرپرینورشپ (خود روزگار ) کی طرف جائے۔ دنیا میں جن کے پاس پیسہ ہے وہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کمایا ہے۔ انسانی سماج میں اونچ نیچ، رنگ و نسل، تہذیبی اور ثقافتی کمزوریاں خود ان انسانوں نے پیدا کی ہیں اور اس میں استعماری طاقتوں کا کوئی ہاتھ نہیں وغیرہ۔ آج کا ٹرمپ ٹھیک ہے جب وہ امیگرینٹس کو واپس بھیجنے کی بات کر رہا ہے۔ آج کا اسرائیل ٹھیک ہے کیونکہ وہ فلسطین پر اپنا تاریخی حق جتا رہا ہے۔ تیسری دنیا کے غریب ممالک کے عیاش حکمران ٹھیک ہیں جب وہ آئی ایم ایف کے کہنے پر غریب عوام سے صحت اورتعلیم کا حق چھین رہے ہیں۔
انسان کی انفرادیت سب سے اہم ہے۔ فرد اپنی زمین اور اس سے وابستہ زندگی کا ذمہ دار نہیں۔ فرد صرف اپنے بارے میں سوچے۔
جنگیں، ماحولیاتی مسائل، غربت، بیماریاں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے بیگانگی اور ڈپریشن اس آرگیومنٹ کی وجہ سے ہے۔ یہ آرگیومنٹ جمہوریت کی ضد اور نئے ہائبرڈ ریجیمز کی وجہ ہے۔
All reactions:
Prangwal Bimberjumat, Sahibzada Roouhullah Jan and 2 others

پوسٹ نمبر 23 جنریشن گیپ

جنریشن گیپ
یہ ایک کارآمد اصطلاح ہے جو دو نسلوں کے درمیان فکری اور جذباتی رجحانات کے درمیان تفریق کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر والدین اور بچوں کے زندگیوں یہ فرق واضح طور پر موجود ہے کیونکہ دونوں کی نفسیات مختلف تاریخی ادوار میں بنی ہے۔ ایک نسل اپنے وقت کے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
تاریخ دانوں نے یکساں خصوصیات کی وجہ سے مختلف جنریشن کے نام تجویز کئے ہیں تاکہ ایک طرف اس فرق کو واضح کیا جا سکے تو دوسری طرف مختلف جنریشن کے درمیان رابطے اور خاص طور پر پرانے جنریشن کو نئے جنریشن کو سمجھنے اور ان کی راہنمائی کے لئے اقدامات سے باخبر کیا جا سکے۔
موجودہ دور میں میلینیلز جو گزشتہ صدی کے ستر کے دہائی کے آخر میں پیدا ہوئے تھے اور جنریشن زی جو اسی صدی کے آخر میں پیدا ہوئے ہیں کے درمیان فکری اور جذباتی تضاد سیاست کا ایک اہم پہلو ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جنریشن زی میلینیلز کے سیاسی وارث ہیں۔
جنریشن زی میلینیلز کے مقابلے میں ٹک ٹاک اور انسٹاگرام کو زیادہ وقت دیتے ہیں۔ غیر رسمی معلومات جیسے ویڈیوز کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اپنا روزگار خود تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی صحت، کلائمیٹ چینج اور انسانی حقوق کے رحجانات کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارمز میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ تجریدی انٹرنیٹ کلچر اور میمز کو ترجیح دیتے ہیں۔ قلیل مدت سوچ اور طرز فکر رکھتے ہیں۔ اقتصادی سوچ بوجھ کے حامل ہیں۔سوشل میڈیا، ہیش ٹیگز اور آن لائن ڈسکشنز کو پسند کرتے ہیں۔ منٹورشپ پروگرامز، لیڈرشپ رول، انٹرشپ اور فیلوشپ میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ایونٹس اور ریلیز میں ان کو انگیج کیابجا سکتا ہے۔ والنٹیر پروگرامز میں ان کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایجوکیشنل پروگرامز، ورکشاپس اور کریٹیکل تھنکنگ وغیرہ میں بھی وہ خوش رہ سکتے ہیں۔ جنریشن زی سمجھتے ہیں کہ ان کو سنا جائے اور ان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے۔

Monday, January 20, 2025

(22) پوسٹ نمبر

 Facebook

Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook
Facebook

پاکستانی مڈل کلاس
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی مڈل کلاس آبادی کا پچیس سے تیس فی صد تک ہے جس میں زیادہ تر لور مڈل کلاس شامل ہے۔آبادی کا ستر فی صد لور کلاس اور ایک فی صد اپر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔
مڈل کلاس کسی بھی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے ۔ آبادی کا یہ حصہ نظریاتی اور فکری شعور کی بدولت سیاسی اہمیت رکھتا ہے اور لور کلاس اس کو دیکھ کر اپنی زندگی کے ترجیحات متعین کرتا ہے۔مڈل کلاس اگر زیادہ باشعور نہ ہو تو اپر کلاس کی نقالی کرتا ہے۔
تاریخی طور پر پاکستانی مڈل کلاس انگریز دور میں بنناشروع ہو گیا جب چند خاندانوں نے انگریزوں کی نوکریا ں شروع کی اوران کے زیرِ سایہ سیاست میں حصہ لینے لگے۔پاکستان بننے کے بعد ان میں کاروباری طبقہ بھی شامل ہونا شروع ہوگیا۔ یہ لوگ زیادہ ترنظریاتی طور پر ریاستی نظریہ کے پرچار کے آلہ کا ر بننے لگے جن میں ان کا پسندید ہ کام بیوروکریسی کا حصہ بننا تھا۔ ایوب خان دور میں امیر طبقہ کو نوازنے کی کوششوں کے نتیجے میں مڈل کلاس نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا جس میں مزدور یونین، وکلاء اور استاتذہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔یہی وہ دور تھا جب خواتین اور سول سوسایٹی تنظمیں بھی مڈل کلاس میں ایکٹیو ہونے لگے۔بھٹو دور میں لور مڈل کلاس اور مڈل مڈل کلاس بین الاقوامی سوشلٹ نظریات سے متاثر رہیں اسی دور میں لوگوں کومڈل ایسٹ میں روزگار کی وجہ سے مڈل کلاس کا حجم بڑھنے لگا ۔ضیاء دور میں مڈل کلاس کی اسلامایزشن اور ریڈکلایزشن کا کام شروع ہوا جس کے نتیجے میں مڈل کلاس نظریاتی تضادات کا شکار ہوا جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔مشرف دور میں بیرونی امداد کی وجہ سے مڈل کلاس مزید بڑھنے لگا۔
موجودہ پاکستانی مڈل کلاس زیادہ تر مذہبی ہے اور عرب اثرات کے زیرِ اثر ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اس کلاس کی شعوری سطح کم ہے ۔ نیو لبرل اثرات کے نتیجے میں یہ کلاس پیسے کی طاقت پر اوپر جانے ، سیاسی طاقت حاصل کرنے اور اپر کلاس کی نقل میں پہلے سے زیادہ تیز ہے۔آبادی کی اکثریت یعنی لور کلاس کو اپنے لایف سٹایل سے متاثر کرنا اور اپر کلاس سے تعلقات قایم کرنا اس کلاس کا محبوب مشعلہ ہے۔تہذیبی ورثہ کی تباہی ، سیاست کی بربادی اور کرپشن میں یہ کلاس سب سے آگے ہے۔
SOURCE: Pakistan’s New Middle Class
Neo Pei En, Phedra, Amit Ranjan
15 December 202

My Articles

Read and Comment
Powered By Blogger

Followers

Blog Archive